0
Tuesday 24 Jul 2018 21:32

بلتستان میں ایام اسد کی مجالس کا آغاز، یکم اگست کو اسد عاشورا منایا جائیگا

بلتستان میں ایام اسد کی مجالس کا آغاز، یکم اگست کو اسد عاشورا منایا جائیگا
رپورٹ: لیاقت تمنائی
 
بلتستان میں عشرہ اسد کی مجالس کا آغاز ہوگیا، دس دنوں مساجد اور امام بارگاہوں میں مجالس ہونگی جبکہ دسویں روز اسد عاشورہ منایا جائے گا۔ گمبہ اسکردو میں   29 جولائی کو جبکہ اسکردو شہر میں یکم اگست کو اسد عاشورا منایا جائے گا۔ اسی روز بلتستان کے تمام علاقوں میں بھی عاشورہ منایا جاتا ہے، عشرہ اسد کے حوالے سے ضلعی انتظامیہ نے انتظامات مکمل کئے ہیں، ڈپٹی کمشنر اسکردو کی زیر صدارت اجلاس میں اسد عاشورا کے انتظامات کو حتمی شکل دیدی گئی، آئی جی پولیس گلگت بلتستان ثناءاللہ عباسی بھی اسکردو پہنچے ہیں، انہوں نے اسد عاشورہ کے انتظامات کا جائزہ لینے کے ساتھ احکامات بھی جاری کئے۔

گذشتہ روز ڈی آئی جی بلتستان نے میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ اسد عاشورہ کے انتظامات کو حتمی شکل دیدی گئی ہے، تمام داخلی و خارجی راستوں کی چیکنگ سخت کردی گئی ہے، عاشورہ کی سکیورٹی پر کسی بھی قسم کا کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا، عزاداروں کو ہر صورت بھرپور سکیورٹی فراہم کی جائے گی۔ واضح رہے کہ اسکردو شہر میں اسد عاشورہ کے مرکزی جلوسوں میں ڈیڑھ لاکھ سے زائد عزاداروں کی شرکت متوقع ہے، گذشتہ سال ایک لاکھ دس ہزار سے زائد عزاداروں نے شرکت کی تھی۔ بلتستان کے بعد نگر میں بھی تاریخ میں پہلی مرتبہ اسد مجالس کا اہتمام کیا گیا، 20 جولائی کو اسقدرداس نگر میں اسد عاشورہ منایا گیا، جلوس برآمد ہوئے، سینکڑوں عزاداران امام حسین نے اسد عاشورہ کے جلوس میں شرکت کی۔ بلتستان کے بعد دیگر علاقوں میں اسد عاشورہ منانے کا سلسلہ پہلی مرتبہ شروع ہوا ہے۔
 
بلتستان میں عزاداری:
ظہورِ اسلام سے قبل بلتستان (بلتی یول) کے لوگ پہلے زرتشتی مذہب، اس کے بعد بون چھوس (تبت کا قدیم مذہب) اور اس کے بعد بدھ مت کے پیروکار تھے۔ چودھویں صدی عیسوی کے آخری ربع کے دوران ایرانی مبلغین کے ذریعے بلتستان میں اسلام پھیلنا شروع ہوا، عام طور پر یہاں اشاعت اسلام کو حضرت امیر کبیر سید علی ہمدانی سے منسوب کیا جاتا ہے۔ جو اپنے سینکڑوں مریدوں، شاگردوں اور علماء کے ساتھ 1373-83ء کے دوران تین بار کشمیر تشریف لائے تھے، امیر کبیر کی تبلیغ سے رفتہ رفتہ لوگوں نے اسلام قبول کیا، یہاں تک آپ نے سب سے پہلے کھرڈونگ میں ایک مسجد تعمیر کرائی، پھر گمبہ اسکردو میں جامع مسجد تعمیر کرکے نماز جمعہ و جماعت قائم کی اس کے بعد حسین آباد میں اس کا اہتمام کیا گیا، اسکردو سے آپ شگر چلے گئے اور وہاں سے برالدو تک اسلام پھیلایا، اس کے بعد خپلو میں چھوربٹ تک اسلام کی تبلیغ کی۔ ان کے بعد میر شمس الدین عراقی 1505ء تا 1499ء کے دوران سکردو میں راجہ مقپون بوخا کے عہد میں کشمیر سے اسکردو تشریف لائے اور کچھ عرصہ یہاں اشاعت اسلام میں مصروف رہے(1)
 
بلتستان ادب کا گہوارہ کہلاتا ہے، بعض مواقعوں پر ایرانی اور بلتستانی ادب میں قدے اشتراک پایا جاتا ہے، مجالس کے آداب و انعقاد کے حوالے سے بلتستان اور ایران میں قدر مشترک ہے جس سے اس بات کو تقویت ملتی ہے کہ بلتستان میں اسلام کی تبلیغ میں ایرانی مبلغین کا بنیادی کردار ہے۔ مقپون بوخا کا بیٹا شیر شاہ خاص طورپر میر شمس الدین عراقی سے متاثر تھا اور اس نے ان کی مریدی اختیار کر لی تھی، بعد میں 1515ء میں جب وہ خود برسر اقتدار آیا تو اس نے اسلامی رسومات کے فروغ اور اشاعت اسلام کے لئے سرکاری وسائل فراہم کئے۔ اسی دور کو بلتستان میں عزاداری کا ابتدائی دور کہا جا سکتا ہے۔ بعد میں بلتستان کے معروف راجہ علی شیر خان انچن (1588ء تا 1625ء) کے دور میں دیگر علوم و فنون اور رسوم و رواج کے ساتھ ساتھ رسمِ عزاداری اور فن شاعری کو بھی عروج ملنا شروع ہو گیا۔(1)
 
بلتستان میں اسد عاشورہ کا سلسلہ کب شروع ہوا؟
بلتستان ہی دنیا میں واحد خطہ ہے کہ جہاں پر سال میں دو مرتبہ اسد عاشورہ منایا جاتا ہے۔ ماہ محرم کے بعد برج اسد کے آخری ایام میں بھی عاشورہ منایا جاتا ہے، ایام اسد بلتستان میں سال کے گرم ترین ایام ہوتے ہیں، چونکہ بلتستان پہاڑی علاقہ ہونے کی وجہ سے سال بھر سردی رہتی ہے تاہم ایام اسد میں سال میں سب سے زیادہ گرمی پڑتی ہے، اسی لئے میدان کربلا کی تبتی دھوپ اور گرمی کی یاد میں ایام اسد میں بلتستان میں امام عالی مقام کی اس عظیم قربانی کو یاد کیا جاتا ہے، اسد شروع ہوتے ہی بلتستان بھر کی مساجد و امامبارگاہوں میں مجالس شروع ہوتی ہیں اور آخری روز یوم عاشور منایا جاتا ہے جو اسد عاشورا کے نام سے مشہور ہے۔ بلتستان میں اسد عاشورا کا سلسلہ کب شروع ہوا اس بارے میں مختلف آراء اور تاریخ بیان کی جاتی ہے تاہم اس عظیم الشان رسمِ عزاداری حضرت امام حسین علیہ السلام کے حوالے سے سہ ماہی روضہ حسینی (اکتوبر، نومبر، دسمبر2016ء) میں امام جمعہ والجماعت اسکردو شیخ محمد حسن جعفری کے انٹرویو کا اقتباس قارئین کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے۔

'' بلتستان ایک مذہبی و دینی معاشرے پر مشتمل سرزمین ہے جہاں لوگ تمام مذہبی ایام نہایت عقیدت و احترام اور شان و شوکت سے مناتے ہیں۔ دنیا کے تمام مسلمان بالخصوص شیعہ حضرات محرم الحرام کے ایام کو ایام عزاء کے طور پر مناتے ہیں جبکہ بلتستان کے شیعہ اور نوربخشیہ شمسی کیلنڈر کے مطابق برج اسد کے پہلے دس ایام کو ایام عزاء کے طور پر مناتے ہیں، ان ایام میں جلوسِ عزاء بھی برآمد ہوتے ہیں اور حضرت امام عالی مقام علیہ السلام کی عظیم قربانی کو یاد کیا جاتا ہے۔ جہاں تک ”اسد کاعاشورا“ منانے کی تاریخ بیان کرنے کا تعلق ہے تواس سلسلے میں عرض ہے کہ ۔۔۔۔۔۔
 
1۔ 1160 ہجری کے اختتام پر کشمیر سے تشریف لانے والے ایک عالم ملا محمد مہدی نے کھرمنگ میں اس کا آغاز کیا (بحوالہ تاریخ شیعیان کشمیر از غلام محمد گلزار)
2۔ موسم کے اعتبار سے بلتستان سرد علاقہ ہے جبکہ سن 61 ہجری میں میدان کربلا پر آگ برس رہی تھی اس احساس نے ”اسدکا عاشورا“ منانے کی سوچ کو مہمیز کیا۔
3۔ ابتداء میں مقامی سطح پر کوئی عالم دستیاب نہ ہوتا تھا جو محرم کی مجالس پڑھ سکے جبکہ مجالس کے لئے خطیب کشمیر ہی سے آتے تھے ایسے میں اگر ایام محرم موسم سرما میں آ جاتے تھے اور برفباری کی وجہ سے کشمیر کی جانب آمد و رفت کے راستے بند ہو جاتے تھے، تب راستے کھلنے کے بعد مجالس منعقد کی جاتی تھیں رفتہ رفتہ یہ سلسلہ مستحکم ہوتا گیا اور یوں اسد کا عاشورا منانے کی ابتداء ہوئی۔
 
4۔ بلتستان میں وسائل کی کمیابی کے اسباب بھی ”اسد کا عاشورا“ منعقد کرنے کا سبب کہے جا سکتے ہیں اس لئے کہ یہاں نئی فصل جولائی میں پک کر تیار ہوتی ہے ایسے میں اگر ایام محرم ابتدائے بہار میں آ جاتے تھے تو یہاں کے عزادار بوجہ غربت دل کھول کر تبرک کا اہتمام نہ کر پاتے تھے چنانچہ ایام محرم کے ساتھ ساتھ مالی آسودگی کے ایام میں بھی عزاداری کا انعقاد رواج پکڑتا گیا۔
5۔ مجالس سید الشہداء باعثِ ترویج شریعت و ذریعہ تبلیغ دین ہیں چنانچہ عوامی سطح پر اسد عاشورا منانے کو پذیرائی ملی۔ بعض مقامات پر یہ روایت بھی زبانِ زد عام ہے کہ قیام پاکستان سے کچھ عرصہ قبل بعض دیہاتوں نے ”اسد کا عاشورا“ منعقد کرانا بند کردیا جس سے ان علاقوں میں چیچک اور طاعون کی وباء پھیل گئی یہاں تک کہ انہوں نے اس سلسلہ خیر کا پھر سے آغاز کیا اور وہ دیہات محفوظ ہوگئے۔
6۔ ”اسد کا عاشورا“ مقبوضہ کشمیر میں بھی منایا جاتا ہے جبکہ کم و بیش دو سو سال تک ہنزہ میں بھی اس کا انعقاد ہوتا رہا ہے۔ (بحوالہ کتاب فارسی۔ تاریخ عہد عتیق ریاست ہنزہ از قدرت اللہ بیگ)(2)
 
بلتستان میں مجالس کے آداب
بلتستان میں شروع میں آداب مجالس ایرانی طرز کے تھے، بعد میں ان میں کشمیری روایات بھی شامل ہو گئیں۔ بلتی مجالس کی روایات کے مطابق مجلس کے آغاز سے پہلے عزا خانے کے اوپر کی طرف ممبر کے گرد ایک دائرہ بنا کر علما، ذاکرین اور نوحہ خوانوں کے علاوہ بزرگوں کو بٹھا دیا جاتا ہے۔ ان کے پیچھے باقی لوگ ترتیب وار بیٹھ جاتے ہیں۔ مجلس کے آغاز کے ساتھ ہی تمام شرکاء اپنی ٹوپیاں اتار دیتے ہیں۔ بعض لوگ اپنے سروں پر چادریں ڈال لیتے ہیں، جس کے بعد مرثیہ خوان (بلتی زبان میں) پہلے دو مصرے بیٹھ کر پھر کھڑے ہو کر مرثیہ کے باقی شعر مخصوص لے میں پڑھتا ہے۔ قدیم زمانہ میں یہ نوحے فارسی زبان میں تھے، بعد میں مقامی شعراء نے بلتی نوحے لکھے۔ مجلس کے اختتام پر تبرکات کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ جس میں عام طور پر پتلی روٹیوں (چپاتی) کے ساتھ حلوہ، گوشت اور مقامی روٹیاں کلچہ، اذق وغیرہ پیش کئے جاتے ہیں، ان کے ساتھ مقامی نمکین چائے بھی پیش کی جاتی ہے۔

نویں محرم کو حضرت عباس کی مجلس خصوصیت کے ساتھ منعقد کی جاتی ہے، اس رات مختلف امام بارگاہوں میں شب عاشور کی مجالس منعقد کی جاتی ہیں اور بعد میں ماتمی جلوس برآمد کئے جاتے ہیں اور یوں رات بھر ماتم کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ بعد میں کم و بیش تمام لوگ کالے لباس میں ملبوس ہو کر امام بارگاہوں کا رخ کرتے ہیں۔ (3) ایک اندازے کے مطابق اسکردو میں یوم اسد عاشورہ ملک بھر سے ڈیڑھ لاکھ سے زائد عزادار شریک ہوتے ہیں، بلتستان ادب و ثقافت کے حوالے سے مشہور ہے، یہ دنیا کا واحد خطہ ہے کہ یہاں سال میں دو مرتبہ عاشورا منایا جاتا ہے، ایک زمانے میں بلتستان کو ایران صغیر بھی کہا جاتا تھا لیکن اب صورتحال میں کچھ تبدیلی آرہی ہے، ففتھ جنریشن وار، اور تہذیبوں کے تصادم کے اثرات ظاہر ہو رہے ہیں ایسے حالات میں ایام اسد کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مآخذ:
1۔تاریخ بلتستان : از محمد یوسف حسین آبادی
2۔ https://www.aalmiakhbar.com/archive/index.php?mod=article&cat=specialreport&article=16732
3۔ http://akbar512.blogfa.com/post/58
خبر کا کوڈ : 740057
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش